شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے
در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے
آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی
میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے
ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری
ہاں کچھ بھی جو کہے جو یہاں کامیاب ہے
شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا
اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے
اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ
بانی ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...